حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین خواہران کی سیکرٹری جنرل اور پنجاب اسمبلی میں خواتین کی خصوصی نشست پر اسمبلی ممبر محترمہ خانم سیدہ زہرا نقوی جو کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی رح کی دختر ہیں، نے "اسلامی معاشرہ میں عورت کا مقام و کردار" کے موضوع پر حوزہ نیوز ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ جسے خلاصہً قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
حوزہ نیوز: ایک کامیاب اور آئیڈیل گھرانے میں خواتین کے کردار کو بیان کریں؟
محترمہ خانم سیدہ زہرا نقوی: ایک کامیاب اور آئیڈیل گھرانے میں ایک مسلمان خاتون کا کردار وہی ہونا چاہیے جو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا کردار تھا یعنی ایک بیٹی کے روپ میں، ایک زوجہ کے روپ میں اور ایک ماں کے روپ میں ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزاری۔ اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا اور اس کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی میں بھی کہیں پر کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ جب اپنے حقوق کے دفاع کے لئے وقت پڑا تو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کہیں حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے اور اپنی وراثت کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں دربار میں جاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان بیٹیوں کو ان کے وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے، یا زوجہ کہتی ہے کہ میں صبر کر کے بیٹھ جاتی ہوں جو میرے حقوق اسلام نے ایک زوجہ کو دیے ہیں اگر وہ اپنے حقوق کو طلب نہیں کرتی تو وہ بھی غیر مناسب ہے یا اسی طرح سے جو خاتون کے کردار معاشرے کے اندر ہونا چاہئے وہ ہمیں سیرت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا میں دکھائی دیتا ہے اس کو بھرپور انداز میں اپنانے کی ضرورت ہے۔
آج کی خواتین کیلئے بھی یہی آئیڈیل ہے کہ وہ اپنی گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے ادا کریں۔
حوزہ نیوز: آج مغرب کی یلغار کو دیکھتے ہوئے آئے دن عورت کو "عورت ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ" کے نام پر Miss Use کیا جاتا ہے، اس پر آپ ایک مسلمان خاتون کو کیا پیغام دیں گی؟
محترمہ خانم سیدہ زہرا نقوی: دیکھیں دنوں کے حساب سے جو سلیبریشن ہے جیسے "انٹرنیشنل وومن ڈے" تو وہ پوری دنیا میں منایا جارہا ہے تو اس کو ہم چیلنج نہیں کر سکتے ہیں لیکن اس کی جو ماہیت ہے وہ اس کی سلیبریشن ہے اس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مسلم عورت کو خیال رکھنا چاہیے کہ ہم ان دنوں کو اسلامی اقدار کے تحت منائیں۔ جیسے ویلنٹائن ڈے ہے اس کو جو مس یوز کیا جاتا ہے اسے مس یوز نہیں ہونا چاہیے۔ آج ہماری مسلمان خواتین فضول نعروں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں حالانکہ انہیں اپنی عفت اور حیا اور اپنے وقار کا خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن وہ مس یوز ہو جاتی ہیں وہ ان تمام چیزوں کا خیال نہیں رکھتی ہیں جو بہرحال ہماری خواتین کو کرنا چاہیے۔
ان دنوں کو منانا چاہیے لیکن اپنے دینی وقار کے ساتھ، اچھے انداز میں اور ایک اچھا میسج دیا جانا چاہئے بلکہ اگر ایک مسلمان خاتون اپنے حقوق کو جانتے ہوئے، اپنے وقار کو جانتے ہوئے اور اپنی حیثیت کو جانتے ہوئے عملی میدان میں آئے گی تو ہمارے معاشرہ میں جن غربت زدہ خواتین اور بے چاری خواتین کہ جن کو بہت زیادہ مس یوز کیا جا رہا ہے ان کو شعور حاصل ہو گا۔
آج مغرب میں خاتون کی کوئی عزت نہیں ہے، غرب میں کوئی خاتون کی توقیر نہیں ہے۔ جن مساوی حقوق کا کھوکھلا نعرہ لگایا جاتا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ وہ بھی ان کو حاصل نہیں ہیں۔ وہاں کی خواتین نہ تو وہ ایک اچھی بیٹی بن کر زندگی گزار رہی ہوتی ہیں نا ایک اچھی زوجہ بن کر، نہ ہی ایک اچھی ماں ثابت ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ اور جس طرح مغرب میں ہو رہا ہے تو دشمن یہ چاہ رہا ہے کہ مسلمان معاشروں کو بھی اسی تباہی کا شکار کر دے لیکن ایک بیدار خاتون ان دنوں کو اسلامی اقدار کے ساتھ منا کر اس سازش کا خاتمہ کر سکتی ہے۔
حوزہ نیوز: پاکستان جیسے مک میں کسی بھی پلیٹ فارم پر عورت کی سربراہی یا سرپرستی کرنے یا مسلمان خاتون کا کسی ادارے میں کام کرنا یا سیاست میں آنا ملکی ترقی میں کیا تاثیر رکھتا ہے، بیان کریں۔
محترمہ خانم سیدہ زہرا نقوی: پاکستان جیسے ملک میں یا پھر کہیں بھی اسلامی مملکت میں عورت کو اپنا مقام ملنا چاہیے لیکن قرآن کے تحت جو "الرجال قوامون علی النساء" پر اتفاق کرتی ہوں، ان کی سرپرستی اور حاکمیت مردوں کے سپرد ہونی چاہیے اور خواتین کو ہر فیلڈ میں، ہر ادارے میں ہر جگہ پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن ہم چونکہ نبوت اور امامت کے قائل ہیں لہذا جتنے بھی کمال پر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا یا پھر قرآن میں موجود خواتین کا ذکر ہے وہ ان مقامات پر فائز ہیں۔ لیکن دین مبین اسلام چاہتا ہے کہ امامت اور نبوت مردوں کے پاس رہے، خواتین کو کام کرنا چاہیے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ خود خاتون کے لیے بہت سخت ہے چونکہ عورت کی نرم مزاجی جو طبیعت پروردگار عالم نے اسے عطا کی ہے اگر اس پر اتنی زیادہ سنگین ذمہ داریاں عائد کی جائیں گی اور وہ اگر اس سرپرستی کو اپنے سر لے لے تو اس کی اپنی شخصیت بہت زیادہ متاثر ہو سکتی ہے۔
حوزہ نیوز: ایک دینی خاتون معاشرہ کی ترقی اور اس کی پیشرفت میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
محترمہ خانم سیدہ زہرا نقوی: ایک خاتون کا معاشرے کی ترقی اور پیشرفت میں کردار نہایت اہم ہے یعنی اگر ایک خاتون دینی اقدار کے ساتھ، اپنے حجاب کے ساتھ معاشرے میں اپنے کردار کو ادا کرتی ہے چاہے وہ کسی بھی فیلڈ میں ہو وہ زیادہ توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور معاشرے کی معنوی رشد میں بہت مستحکم کردار ادا کر سکتی ہے۔
حوزہ نیوز: آپ کی نظر میں دنیا میں مسلمانوں کی ابتر صورتحال اور باہمی تضاد و انتشار کے اسباب کیا ہیں؟
محترمہ خانم سیدہ زہرا نقوی: میں سمجھتی ہوں کہ دنیا بھر میں جو مسلمانوں کی ابتر صورتحال ہے اور باہمی تضاد ہے وہ اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں ۔ وہ دینِ مبین جو انسان کو عروج تک پہنچانے کے لئے آیا تھا، انسانی کمالات کو حاصل کرنے کے لئے آیا تھا اسے ہم نے فرقے کی بنیادوں پر اور ہر فرقے نے اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا اور ایک دوسرے کے دشمن بن گئے یعنی ہم نے حقیقی اسلام سے دوری اختیار کی۔
ایک دوسری وجہ دشمن کی بہت بڑی سازش ہے کیونکہ عالمی استعمار نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمان جو ہیں وہ بہت بڑی طاقت رکھتے ہیں۔ چاہے وہ سائنس کا میدان ہو، علوم و فنون کا میدان ہو، بادشاہت کے میدان میں بھی برصغیر میں مسلمانوں نے بہت کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس بادشاہی نظام کو کمزور کیا گیا پھر ڈپلومیٹک نظام، ڈیموکریسی کے نظام کو متعارف کروایا گیا تو بہرحال جو مسلمانوں کی ابتر صورتحال کی اصلی اور بنیادی وجہ ہے وہ یہی ہے کہ ہم اسلام کا جو پیغام ہے اس سے دور چلے گئے، جو اسلام کے بنیادی عقائد ہیں ہم ان سے دور چلے گئے ہیں مثلا عقیدۂ توحید، عقیدہ نبوت اور عقیدہ معاد۔ یہ تینوں عقیدے اہل سنت اور اہل تشیع میں مشترکہ ہیں۔ اگر ہم ان تینوں بنیادی عقائد پر ہی عمل کریں اور اگر ہم ان تینوں پر ہی فوکس کر لیں اور ان کو لے کر ہم ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں تو ہم یکجہتی کی طرف جا سکتے ہیں اور ہم بہت ساری کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
حوزہ نیوز: پاکستان کے تعلیمی نظام میں تعلیم و تربیت کا عنصر اور اس میں اسلام نے جو عورت کو مقام دیا ہے، اسے آپ کس تناظر میں دیکھتی ہیں؟
محترمہ خانم سیدہ زہرا نقوی: پاکستان کے تعلیمی نظام میں خواتین کو بہت زیادہ مواقع میسر ہیں اور آج الحمدللہ پاکستان یونیورسٹیز اور پاکستانی کالجز میں جو تعلیم حاصل کرنے کی ریشو ہے وہ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی زیادہ ہے۔ لڑکیاں زیادہ گولڈ میڈلسٹ ہو رہی ہیں اور پوزیشن ہولڈرز ہیں اور اسی طرح وہ اچھے نمبرز کے ساتھ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی حوالے سے تو نسبتاً خواتین کیلئے میدان کھلا ہے لیکن بدقسمتی سے تربیت کا عنصر بہت ضعیف ہے۔ اسلام نے جو مقام ایک خاتون کو دیا ہے اس کے تناظر میں تربیتی حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں جس طرح سے بچیوں کی تربیت کو فوکس کرنا چاہئے وہ ہم نہیں کر پارہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہے چونکہ جب ایک مرد تربیت پاتا ہے تو وہ ایک فرد کی تربیت ہوتی ہے لیکن جب ایک خاتون تربیت پاتی ہے تو وہ ایک خاتون پورے معاشرے کو ریپریزنٹ کر رہی ہوتی ہے اور پورے معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ نکتہ بھی ظریف ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تربیت پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم میں صورتحال کافی تسلی بخش ہے البتہ اب بھی بہت سارے ایسے پسماندہ علاقے بھی ہیں کہ جہاں پر تعلیمی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں ان کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔